EN हिंदी
میں اندھیروں کے نگر سے بھی گزر آیا تو کیا | شیح شیری
main andheron ke nagar se bhi guzar aaya to kya

غزل

میں اندھیروں کے نگر سے بھی گزر آیا تو کیا

پیر اکرم

;

میں اندھیروں کے نگر سے بھی گزر آیا تو کیا
بجھ گئیں آنکھیں مری وہ اب نظر آیا تو کیا

کھو گئے دن کے اجالوں میں مرے خوابوں کے چاند
عرش سے اب چاند بھی کوئی اتر آیا تو کیا

میں تو اک گہرے سمندر میں اتر جانے کو ہوں
تو خراج اشک لے کر اب اگر آیا تو کیا

گھر سے آنے والے تیروں کا نشانہ بن گیا
میں مقابل غیر کے سینہ سپر آیا تو کیا

یہ در و دیوار بھی اب تو نہیں پہچانتے
میں سفر سے لوٹ کر بھی اپنے گھر آیا تو کیا

بہہ گئے سیلاب کے دھاروں میں جب سارے مکیں
اب تجھے اکرمؔ خیال بام و در آیا تو کیا