EN हिंदी
میں اگر آئنے بناتا ہوں | شیح شیری
main agar aaine banata hun

غزل

میں اگر آئنے بناتا ہوں

خالد محمود ذکی

;

میں اگر آئنے بناتا ہوں
جوہر خاک سے بناتا ہوں

تم کسی ایک سے چلے آنا
میں کئی راستے بناتا ہوں

بات کیا ہے کھلے بس اتنا ہی
میں کہاں مسئلے بناتا ہوں

کس کی دوری کا خوف ہے مجھ کو
خواب میں دائرے بناتا ہوں

میں کہ اپنی اسی خموشی سے
بات کے سلسلے بناتا ہوں

زخم دیتی ہے تیرگی اور میں
روشنی زخم سے بناتا ہوں

میں جو خود کو بنا نہیں پایا
اب ترے واسطے بناتا ہوں