EN हिंदी
میں ابھی سے کس طرح ان کو بے وفا کہوں | شیح شیری
main abhi se kis tarah un ko bewafa kahun

غزل

میں ابھی سے کس طرح ان کو بے وفا کہوں

نشور واحدی

;

میں ابھی سے کس طرح ان کو بے وفا کہوں
منزلوں کی بات ہے راستے میں کیا کہوں

حسن بے حجاب پر کوئی پردہ ڈال لو
تم اسے صنم کہو میں اسے خدا کہوں

اے حریص مے کدہ خون زندگی نہ پی
تو شراب اگر پیے تجھ کو پارسا کہوں

گیسوئے سیاہ کی یہ حسیں درازیاں
رات کیوں کہوں انہیں رات کی دعا کہوں

ترجمان راز ہوں یہ بھی کام ہے مرا
اس لب خموش نے مجھ سے جو کہا کہوں

غیر میرا حال غم پوچھتے رہے مگر
دوستوں کی بات ہے دشمنوں سے کیا کہوں

امتحان شوق ہے ایسی عاشقی نشورؔ
دل کا کوئی حال ہو ان کو دل ربا کہوں