میں آب عشق میں حل ہو گئی ہوں
ادھوری تھی مکمل ہو گئی ہوں
پلٹ کر پھر نہیں آتا کبھی جو
میں وہ گزرا ہوا کل ہو گئی ہوں
بہت تاخیر سے پایا ہے خود کو
میں اپنے صبر کا پھل ہو گئی ہوں
ملی ہے عشق کی سوغات جب سے
اداسی تیرا آنچل ہو گئی ہوں
سلجھنے سے الجھتی جا رہی ہوں
میں اپنی زلف کا بل ہو گئی ہوں
برستی ہے جو بے موسم ہی اکثر
اسی بارش میں جل تھل ہو گئی ہوں
مری خواہش ہے سورج چھو کے دیکھوں
مجھے لگتا ہے پاگل ہو گئی ہوں
غزل
میں آب عشق میں حل ہو گئی ہوں
حمیرا راحتؔ