مئے کوثر کا اثر چشم سیہ فام میں ہے
ساقیٔ مست عجب کیف ترے جام میں ہے
دیکھیے فیصلۂ یاس و تمنا کیا ہو
صبح محشر کی جھلک تیرگئ شام میں ہے
نگہ مست کا پھر زہد شکن دور چلے
پھر ڈھلے بادۂ سرجوش جو اس جام میں ہے
چھا گئے شیوۂ بیداد پہ دل کش نغمے
میں قفس میں ہوں کہ صیاد مرے دام میں ہے
مطمئن خود ہی نہیں پھر اثر انداز ہو کیا
پند واعظ ابھی اندیشۂ انجام میں ہے
آرزو لطف طلب عشق سراسر ناکام
مبتلا زندگی دل انہیں اوہام میں ہے
غزل
مئے کوثر کا اثر چشم سیہ فام میں ہے
دل شاہجہاں پوری