محو رخ یار ہو گئے ہم
سو جی سے نثار ہو گئے ہم
فتراک سے باندھ خواہ مت باندھ
اب تیرے شکار ہو گئے ہم
دامن کو نہ پہنچے تیرے اب تک
ہر چند غبار ہو گئے ہم
آتا نہیں کوئی اب نظر میں
کس سے یہ دو چار ہو گئے ہم
تھا کون کہ دیکھتے ہی جس کے
یوں عاشق زار ہو گئے ہم
ہستی ہی حجاب تھی جو دیکھا
اس بحر سے پار ہو گئے ہم
بیدارؔ سرشک لالہ گوں سے
ہم چشم بہار ہو گئے ہم
غزل
محو رخ یار ہو گئے ہم
میر محمدی بیدار