محو نظارۂ حیرت ہے ہوا پہلی بار
مجھ پہ دروازۂ مہتاب کھلا پہلی بار
ہجر کی شب سے بہت دور سر مطلع شوق
اب کے تنہائی میں وہ مجھ سے ملا پہلی بار
اب نہ احسان کریں مجھ پہ یہ کالی راتیں
اس اندھیرے میں جلا کوئی دیا پہلی بار
اب دھنک رنگ بہت صاف نظر آتے ہیں
اپنے آئینہ میں آئی ہے جلا پہلی بار
اک حقیقت نے کیا خواب سا جادو مجھ پر
اور میں دیر تلک سوتا رہا پہلی بار
اور پھر دشت جنوں مجھ کو بہت یاد آیا
چاک داماں جو ابھی میں نے سیا پہلی بار
غزل
محو نظارۂ حیرت ہے ہوا پہلی بار
مہتاب حیدر نقوی

