مہتاب نہیں نکلا ستارے نہیں نکلے
دیتے جو شب غم میں سہارے نہیں نکلے
کل رات نہتا کوئی دیتا تھا صدائیں
ہم گھر سے مگر خوف کے مارے نہیں نکلے
کیا چھوڑ کے بستی کو گیا تو کہ ترے بعد
پھر گھر سے ترے ہجر کے مارے نہیں نکلے
بیٹھے رہو کچھ دیر ابھی اور مقابل
ارمان ابھی دل کے ہمارے نہیں نکلے
نکلی تو ہیں سج دھج کے تری یاد کی پریاں
خوابوں کے مگر راج دلارے نہیں نکلے
کب اہل وفا جان کی بازی نہیں ہارے
کب عشق میں جانوں کے خسارے نہیں نکلے
انداز کوئی ڈوبنے کے سیکھے تو ہم سے
ہم ڈوب کے دریا کے کنارے نہیں نکلے
وہ لوگ کہ تھے جن پہ بھروسے ہمیں کیا کیا
دیکھا تو وہی لوگ ہمارے نہیں نکلے
اشعار میں دفتر ہے معانی کا بھی رہبرؔ
ہم لفظوں ہی کے محض سہارے نہیں نکلے
غزل
مہتاب نہیں نکلا ستارے نہیں نکلے
راجندر ناتھ رہبر