EN हिंदी
محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا سمٹ گئی | شیح شیری
mahsus ho raha hai ki duniya simaT gai

غزل

محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا سمٹ گئی

نور جہاں ثروت

;

محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا سمٹ گئی
میری پسند کتنے ہی خانوں میں بٹ گئی

تنہائیوں کی برف پگھلتی نہیں ہنوز
وعدوں کے اعتبار کی بھی دھوپ چھٹ گئی

ہم نے وفا نبھائی بڑی تمکنت کے ساتھ
اپنے ہی دم پہ زندہ رہے عمر کٹ گئی

دور خرد وہ دور خرد ہے کہ کیا کہیں
قیمت بڑھی ہے فن کی مگر قدر گھٹ گئی

ثروتؔ ہر ایک رت میں لپیٹے رہی جسے
وہ نامراد آس کی چادر بھی پھٹ گئی