محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا سمٹ گئی
میری پسند کتنے ہی خانوں میں بٹ گئی
تنہائیوں کی برف پگھلتی نہیں ہنوز
وعدوں کے اعتبار کی بھی دھوپ چھٹ گئی
ہم نے وفا نبھائی بڑی تمکنت کے ساتھ
اپنے ہی دم پہ زندہ رہے عمر کٹ گئی
دور خرد وہ دور خرد ہے کہ کیا کہیں
قیمت بڑھی ہے فن کی مگر قدر گھٹ گئی
ثروتؔ ہر ایک رت میں لپیٹے رہی جسے
وہ نامراد آس کی چادر بھی پھٹ گئی

غزل
محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا سمٹ گئی
نور جہاں ثروت