محسوس ہو رہا ہے جو غم میری ذات کا
سچ پوچھیے تو درد ہے وہ کائنات کا
گھر کی گھٹن سے دور نکل جائے آدمی
سڑکوں پہ خوف ہو نہ اگر حادثات کا
اپنے بدن کو اور تھکاؤ نہ دوستو
ڈھل جائے دن تو بوجھ اٹھانا ہے رات کا
اک دوسرے کو زہر پلاتے ہیں لوگ اب
باتوں میں شہد گھول کے قند و نبات کا
ہر شخص تیرے شہر میں مجرم بنا ہوا
پھرتا ہے ڈھونڈھتا ہوا رشتہ نجات کا
اس میں کسی کا عکس نہ چہرہ دکھائی دے
دھندلا گیا ہے آئنہ خاورؔ حیات کا
غزل
محسوس ہو رہا ہے جو غم میری ذات کا
بدیع الزماں خاور