EN हिंदी
محسوس ہو رہا ہے جو غم میری ذات کا | شیح شیری
mahsus ho raha hai jo gham meri zat ka

غزل

محسوس ہو رہا ہے جو غم میری ذات کا

بدیع الزماں خاور

;

محسوس ہو رہا ہے جو غم میری ذات کا
سچ پوچھیے تو درد ہے وہ کائنات کا

گھر کی گھٹن سے دور نکل جائے آدمی
سڑکوں پہ خوف ہو نہ اگر حادثات کا

اپنے بدن کو اور تھکاؤ نہ دوستو
ڈھل جائے دن تو بوجھ اٹھانا ہے رات کا

اک دوسرے کو زہر پلاتے ہیں لوگ اب
باتوں میں شہد گھول کے قند و نبات کا

ہر شخص تیرے شہر میں مجرم بنا ہوا
پھرتا ہے ڈھونڈھتا ہوا رشتہ نجات کا

اس میں کسی کا عکس نہ چہرہ دکھائی دے
دھندلا گیا ہے آئنہ خاورؔ حیات کا