EN हिंदी
محشرستان جنوں میں دل ناکام آیا | شیح شیری
mahsharistan-e-junun mein dil-e-nakaam aaya

غزل

محشرستان جنوں میں دل ناکام آیا

ظریف لکھنوی

;

محشرستان جنوں میں دل ناکام آیا
نالہ ہنگامہ نوازی پہ سر شام آیا

مہر از روئے معلی جو لب بام آیا
دیکھیے دیکھیے اب دھوپ گئی گھام آیا

برق کی شعلہ نوازی سبب طول حیات
فطرت موت تری زیست کا ہنگام آیا

منتشر ہو گئے جس وقت سب اجزائے حیات
قطرہ دریا میں بہ اندازۂ انجام آیا

توسن عمر گریزاں کی سبک رفتاری
کام دیتی نہیں جب موت کا پیغام آیا

مرکز روح یہ ہے کشمکش موت و حیات
پھر بھی وارفتگئ شوق پہ الزام آیا

میں وہ آسودۂ سوز خلش مژگاں ہوں
جس کو راہ طلب شوق میں آرام آیا

طور سے اک کشش مشق تھی صورت گر شوق
تجھ پر اے وادیٔ ایمن عبث الزام آیا

سرد مہری سے کسی کو جو ہوئی حاجت غسل
گرم جوشی کو بغل میں لیے حمام آیا

زلف کے جال میں معشوق کا سر ہے خود بھی
قیدیوں مژدہ کہ صیاد تہ دام آیا

قبر سے راستہ سیدھا ہے خدا کے گھر کا
جو ادھر جانے لگا باندھ کے احرام آیا

ہے اگر نام اسی کا ادبیات لطیف
تو ظریفؔ اس کو کہیں کیا جسے یہ کام آیا