EN हिंदी
مہکا ہے گل خون وفا جانیے کیا ہو | شیح شیری
mahka hai gul-e-KHun-e-wafa jaaniye kya ho

غزل

مہکا ہے گل خون وفا جانیے کیا ہو

شاہد اختر

;

مہکا ہے گل خون وفا جانیے کیا ہو
جلتی ہے کوئی شمع حنا جانیے کیا ہو

بندش ہے نگاہوں پہ دل و جاں پہ ہیں پہرے
تعبیر تری خواب وفا جانیے کیا ہو

مدت سے کسی زلف کی خوشبو نہیں آتی
مصروفیت دست صبا جانیے کیا ہو

شعلہ سا لپکتا ہے کوئی روزن در سے
خنداں ہے پھر اک بنت حیا جانیے کیا ہو

ٹھہری ہے صبا گردش افلاک رکی ہے
کستا ہے کوئی بند قبا جانیے کیا ہو

باقی ہے ابھی تلخیٔ زہراب لبوں پر
ہے پھر لب ساقی پہ صلا جانیے کیا ہو