EN हिंदी
محفل ناز سے میں ہو کے پریشان اٹھا | شیح شیری
mahfil-e-naz se main ho ke pareshan uTha

غزل

محفل ناز سے میں ہو کے پریشان اٹھا

ناطق گلاوٹھی

;

محفل ناز سے میں ہو کے پریشان اٹھا
بیٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ طوفان اٹھا

ضد نہ کر اے دل ناشاد، کہا مان اٹھا
گھر میں رہنے کا ٹھکانہ نہیں سامان اٹھا

بن روادار یہ اپنوں کی شکایت کیسی
نام اسی کا تو مروت ہے کہ نقصان اٹھا

سب ستارے نہیں اس راہ گزر کے ذرے
دل کے ٹکڑے بھی انہیں میں تو ہیں پہچان، اٹھا

ٹھوکریں کھا کے مصیبت کی سمجھ تو آئی
آدمی بن تو گیا، چونک تو انسان اٹھا

مصلحت وقت کی آج اور ہے اے بادہ فروش
کل کی کل سوچیں گے اس وقت تو دکان اٹھا

ایسے بہتان لگائے کہ خدا یاد آیا
بت نے گھبرا کے کہا مجھ سے کہ قرآن اٹھا

آج ہے کس لئے ایسا ترا انداز حجاب
اجنبی کون ہے محفل میں پکڑ کان اٹھا

دیکھ یہ بار کبھی سر سے اترتا ہی نہیں
زندگی بھر کی مصیبت ہے نہ احسان اٹھا

شعر گوئی نئے انداز کی تجدید خیال
دیکھنا چاہے تو ناطقؔ مرا دیوان اٹھا