محدود نگاہی کے صنم ٹوٹ رہے ہیں
تاریک اجالوں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں
اس دور کی بدلی ہوئی رفتار کا عالم
شیشوں کی طرح نقش قدم ٹوٹ رہے ہیں
تشنہ ہے مرا جام تو کچھ غم نہیں ساقی
یہ غم ہے کہ رندوں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں
اس راز کو ارباب سیاست سے نہ پوچھو
کیوں رابطۂ دیر و حرم ٹوٹ رہے ہیں
یہ زیست ہے یا ریت کا کمزور گھروندا
بن بن کے یوں ہی صدیوں سے ہم ٹوٹ رہے ہیں
حالات کا یہ رخ بھی حیاتؔ آپ سمجھ لیں
کیوں ظلم بہ انداز کرم ٹوٹ رہے ہیں
غزل
محدود نگاہی کے صنم ٹوٹ رہے ہیں
حیات وارثی