مہ و پرویں تہ کمند رہے
کن فضاؤں میں ہم بلند رہے
غم ہستی سے بے نیاز سہی
اہل دل پھر بھی درد مند رہے
چشم عقدہ کشا سے بھی نہ کھلے
ہم کچھ اس طرح بند بند رہے
بر سر دار ہم سہی لیکن
حرف حق کی طرح بلند رہے
حسن کی خود نمائیاں توبہ
مدتوں ہم بھی خود پسند رہے
مے و مستی نہیں ہے اس پہ حرام
میکدے میں جو ہوش مند رہے
ہم ہیں رہبر سے دو قدم آگے
حوصلے شوق سے دو چند رہے
دشمنوں کا گلا نہیں تابشؔ
دوست بھی درپئے گزند رہے
غزل
مہ و پرویں تہ کمند رہے
تابش دہلوی