مگر وہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے
کہ بو کچھ اور میں پائی دماغ میں گل کے
عدو بھی ہو سبب زندگی جو حق چاہے
نسیم صبح ہے روغن چراغ میں گل کے
چمن کھلیں ہیں پہنچ بادہ لے کے اے ساقی
گرفتہ دل مجھے مت کر فراغ میں گل کے
نہیں ہے جائے ترنم یہ بوستاں کہ نہیں
سوائے خون جگر مے ایاغ میں گل کے
علی کا نقش قدم ڈھونڈھتا ہے یوں سوداؔ
پھرے ہے باد سحر جوں سراغ میں گل کے

غزل
مگر وہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے
محمد رفیع سودا