EN हिंदी
مگر وہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے | شیح شیری
magar wo did ko aaya tha bagh mein gul ke

غزل

مگر وہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے

محمد رفیع سودا

;

مگر وہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے
کہ بو کچھ اور میں پائی دماغ میں گل کے

عدو بھی ہو سبب زندگی جو حق چاہے
نسیم صبح ہے روغن چراغ میں گل کے

چمن کھلیں ہیں پہنچ بادہ لے کے اے ساقی
گرفتہ دل مجھے مت کر فراغ میں گل کے

نہیں ہے جائے ترنم یہ بوستاں کہ نہیں
سوائے خون جگر مے ایاغ میں گل کے

علی کا نقش قدم ڈھونڈھتا ہے یوں سوداؔ
پھرے ہے باد سحر جوں سراغ میں گل کے