EN हिंदी
مگر تم سیں ہوا ہے آشنا دل | شیح شیری
magar tum sin hua hai aashna dil

غزل

مگر تم سیں ہوا ہے آشنا دل

آبرو شاہ مبارک

;

مگر تم سیں ہوا ہے آشنا دل
کہ ہم سیں ہو گیا ہے بے وفا دل

چمن میں اوس کے قطروں کی مانند
پڑے ہیں تجھ گلی میں جا بہ جا دل

جو غم گزرا ہے مجھ پر عاشقی میں
سو میں ہی جانتا ہوں یا مرا دل

ہمارا بھی کہاتا تھا کبھی یہ
سجن تم جان لو یہ ہے مرا دل

کہو اب کیا کروں دانا کہ جب یوں
برہ کے بھاڑ میں جا کر پڑا دل

کہاں خاطر میں لاوے آبروؔ کوں
ہوا اس میرزا کا آشنا دل