EN हिंदी
مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے | شیح شیری
magar in aankhon mein kis subh ke hawale the

غزل

مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے

فاروق مضطر

;

مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے
ہمارے نام کے سارے حروف کالے تھے

یہ خاک و باد یہ ظلمات و نور و بحر و بر
کتاب جاں میں یہ کس ذات کے حوالے تھے

ہے رنگ رنگ مگر آفتاب آئینہ
جبین شب پہ تو لکھے سوال کالے تھے

مثال برق گری ایک آن تیغ ہوا
ابھی دریچوں سے لوگوں نے سر نکالے تھے

یہاں جو آج شجر سایہ دار ہے مضطرؔ
یہیں پہ ہم بھی کبھی برگ و بار والے تھے