مفرور کبھی خود پر شرمندہ نظر آئے
ممکن ہے چھپا چہرہ آئندہ نظر آئے
واللہ شرافت کیا اسلاف نے پائی تھی
گردش میں رہے لیکن تابندہ نظر آئے
قرباں جو ہوئے حق پر کب موت انہیں آئی
صدیوں کے تسلسل میں وہ زندہ نظر آئے
خورشید مقدر کے بجھنے سے بجھے کب ہم
ظلمت میں ستاروں سے رخشندہ نظر آئے
لگتا ہے جدا سب سے کردار وسیمؔ اس کا
وہ شہر محبت کا باشندہ نظر آئے

غزل
مفرور کبھی خود پر شرمندہ نظر آئے
وسیم ملک