مدرسہ آوارگی اور ہاتھ میں بستہ نہ تھا
جو کتابوں میں ہے لکھا اس کو وہ پڑھتا نہ تھا
یوں تو دروازے کھلے تھے سارے اس کے واسطے
وہ مسافر راستوں کا ایک جا ٹھہرا نہ تھا
جو سناتا تھا کبھی آب رواں کی داستاں
اس کے ہونٹوں کا مقدر اوس کا قطرہ نہ تھا
تشنگی ہی تشنگی تھی اور صحرا کے سراب
آنکھ پانی پر تھی لیکن سامنے دریا نہ تھا
چھوڑ آیا تھا جسے میں خود انا کے زعم میں
پھر پلٹ کر اس کو میں نے عمر بھر دیکھا نہ تھا
میرے ہاتھوں میں ہے خوشبو اس کے ہاتھوں کی ادیبؔ
جسم جس کا چھو کے میں نے آج تک دیکھا نہ تھا
غزل
مدرسہ آوارگی اور ہاتھ میں بستہ نہ تھا
کرشن ادیب