مدہوش کہیں غم کی شرابوں میں ملیں گے
فن کار ہیں ہم خانہ خرابوں میں ملیں گے
ناقدریٔ ارباب ہنر آج ہے لیکن
کل بن کے سند ساری کتابوں میں ملیں گے
ٹکرا کے پہاڑوں سے پلٹ آئے گی آواز
خود میرے سوالات جوابوں میں ملیں گے
جو لوگ ہیں دیرینہ روایات کے قاتل
تجدید تعلق کے عذابوں میں ملیں گے
نفرت کے بھنور نے جو ڈبویا ہمیں محورؔ
اب ہم بھی محبت کے سرابوں میں ملیں گے
غزل
مدہوش کہیں غم کی شرابوں میں ملیں گے
محور نوری