مدار ذات کے گرداب سے نکل آؤں
میں اپنی ذات کے اسباب سے نکل آؤں
بس ایک بار تو پانی پہ اپنا عکس دکھا
قسم خدا کی میں سیلاب سے نکل آؤں
جو محو رقص نہ ہوں میری روح کے ہم راہ
میں ایسے حلقۂ احباب سے نکل آؤں
میں اپنی جاگتی آنکھوں سے زندگی دیکھوں
مری تمنا ہے میں خواب سے نکل آؤں
ترا تو لہجہ بہت دل شکن ہے اے جاناں
تری کہانی کے ہر باب سے نکل آؤں
جو تیرے لمس کی حدت کو جیت لوں تو میں
پھر اپنی ذات کے برفاب سے نکل آؤں
گندھا ہوا ہے مری ذات کے خمیر میں یہ
میں کیسے عالم اسباب سے نکل آؤں
یہ روشنی مری تہذیب کا ہی حاصل ہے
میں کیسے حلقۂ آداب سے نکل آؤں
جو میرا پیار ہے رومیؔ اگر کبھی مل جائے
میں اپنی ذات کے ہر خواب سے نکل آؤں
غزل
مدار ذات کے گرداب سے نکل آؤں
رومانہ رومی