مچلتی ہے مرے سینے میں تیری آرزو کیا کیا
لیے پھرتی ہے تیری چاہ مجھ کو کو بہ کو کیا کیا
رہی ہے بعد مردن بھی تمہاری جستجو کیا کیا
غبار خاک مرقد اڑ رہا ہے چار سو کیا کیا
کبھی عاشق کو سمجھایا کبھی غیروں کو بہلایا
فریب آمیز ہیں چالیں تری او حیلہ جو کیا کیا
رہائی دی مجھے قید علائق سے عنایت کی
کسی کی تیغ کا ممنون ہے میرا گلو کیا کیا
بہاریں لوٹتا ہوں آپ کے تشریف لانے میں
پھلا پھولا ہے میرا آج نخل آرزو کیا کیا
تمہیں بھی یاد ہیں کچھ قول و اقرار و قسم اپنے
ہوئی تھی درمیاں میرے تمہارے گفتگو کیا کیا
خیال ہجر سے حالت تغیر ہوتی جاتی ہے
اڑا جاتا ہے میرے دل سے رنگ آرزو کیا کیا
تمہارے واسطے سن لیتے ہیں ہر ایک کی باتیں
ہمیں کہہ جاتے ہیں باتوں ہی باتوں میں عدو کیا کیا
عدو کی منتیں کی ہیں قدم چومے ہیں درباں کے
فروغؔ بے سر و ساماں ہوا بے آبرو کیا کیا
غزل
مچلتی ہے مرے سینے میں تیری آرزو کیا کیا
فروغ حیدرآبادی