EN हिंदी
مچلتے رہتے ہیں بستر پہ خواب میرے لیے | شیح شیری
machalte rahte hain bistar pe KHwab mere liye

غزل

مچلتے رہتے ہیں بستر پہ خواب میرے لیے

شہباز ندیم ضیائی

;

مچلتے رہتے ہیں بستر پہ خواب میرے لیے
اتارے جاتے ہیں شب بھر عذاب میرے لیے

میں جب سفر کے ارادے سے گھر کو چھوڑتا ہوں
سلگتا رہتا ہے اک آفتاب میرے لیے

میں تیرا قرض چکاؤں گا وصل کی رت میں
تو اپنے اشکوں کا رکھنا حساب میرے لیے

رفاقتوں کی شگفتہ بشارتیں تیری
تعلقات کے سارے عذاب میرے لیے

پھر اس کے بعد جو تو چاہے ظلم کر دنیا
بس ایک حرف دعا مستجاب میرے لیے

فغاں کا شور مقدر ہے ہجر کی شب میں
نہ کوئی نغمہ نہ چنگ و رباب میرے لیے

یہ کس نگاہ کا اعزاز ہے کوئی بتلائے
کیے ہیں کس نے یہ غم انتخاب میرے لیے

ندیمؔ رشتوں کی ہر آنکھ شب زدہ ہے یہاں
ہر ایک چہرہ ہے جیسے سراب میرے لیے