مایوسی کی کیفیت جب دل پر طاری ہو جاتی ہے
رفتہ رفتہ دین و دنیا سے بے زاری ہو جاتی ہے
اول اول خوش آتا ہے پریوں کے خوابوں میں رہنا
بعد میں لیکن یہ حالت ذہنی بیماری ہو جاتی ہے
عقل پہ پردہ پڑ جاتا ہے دنیا ہم سے کھو جاتی ہے
جب کوئی شخصیت ہم کو حد سے پیاری ہو جاتی ہے
رزق مقدر میں لکھا ہے پھر یہ کاروبار جہاں کیا
اک اک دانہ کمانے میں کس درجہ خواری ہو جاتی ہے
بعض مقام ایسے ہوتے ہیں جن سے آگے بڑھ جائیں تو
ان تک واپس آنے میں بے حد دشواری ہو جاتی ہے
ہم تو شعری کینوس پر بس دل کا حال رقم کرتے ہیں
سچے جذبوں سے اس پر خود نقش نگاری ہو جاتی ہے
اکثر مجھ سے مہینوں کاشفؔ کوئی شعر نہیں ہو پاتا
تازہ زخم مگر لگتے ہی تازہ کاری ہو جاتی ہے
غزل
مایوسی کی کیفیت جب دل پر طاری ہو جاتی ہے
کاشف رفیق