مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے
جاتے ہو کہاں رخ پھیر کے تم مجھ کو تو ابھی کچھ کہنا ہے
کھینچیں گے وہاں پھر سرد آہیں آنکھوں سے لہو پھر بہنا ہے
افسانہ کہا تھا جو ہم نے دہرا کے وہیں تک کہنا ہے
دشوار بہت یہ منزل تھی مر مٹ کے تہہ تربت پہنچے
ہر قید سے ہم آزاد ہوئے دنیا سے الگ اب رہنا ہے
رکھتا ہے قدم اس کوچہ میں ذرے ہیں قیامت زا جس کے
انجام وفا ہے نظروں میں آغاز ہی سے دکھ سہنا ہے
اے پیک اجل تیرے ہاتھوں آزاد تعلق روح ہوئی
تا حشر بدل سکتا ہی نہیں ہم نے وہ لباس اب پہنا ہے
اے گریۂ خوں تاثیر دکھا اے جوش فغاں کچھ ہمت کر
رنگیں ہو کسی کا دامن بھی اشکوں کا یہاں تک بہنا ہے
اپنا ہی سوال اے دلؔ ہے جواب اس بزم میں آخر کیا کہیے
کہنا ہے وہی جو سننا ہے سننا ہے وہی جو کہنا ہے
غزل
مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے
دل شاہجہاں پوری