مارے غصے کے غضب کی تاب رخساروں میں ہے
کل تو تھی پھولوں میں گنتی آج انگاروں میں ہے
تب کی سوزش سے مرے چہرے کی سرخی دیکھنا
کچھ تمہیں خوش رو نہیں یہ پھر طرح داروں میں ہے
روح تیرے گھر کو چھوڑے یہ کبھی ممکن نہیں
جسم میرا خاک ہو کر اس کی دیواروں میں ہے
اتنی زردی ساری دنیا کی خزاں میں بھی نہ ہو
جتنی اور ظالم تری الفت کے بیماروں میں ہے
یا گھٹے کچھ عشق میرا یا بڑھے دنیا میں حسن
یہ تو نا کافی ہے جتنا ان دل آزاروں میں ہے
آئنے میں ڈالتا ہے رخ پہ میری سی نگاہ
تو بھی میرے ساتھ الفت کے گنہ گاروں میں ہے
قدرت اتنے ناز پیدا کر سکے گی یا نہیں
ان کا جتنا صرف تیرے ناز برداروں میں ہے
مسئلہ کثرت میں وحدت کا ہوا حل تم سے خوب
ایک ہی جھوٹ اور تمہارے لاکھ اقراروں میں ہے
قید میں کتنی بڑھی میرے جنوں کی کاہلی
اس سے کم ہے جتنی دنیا بھر کے بے کاروں میں ہے
چاند ہی کہہ دے جو دیکھا ہو کہیں تجھ سا حسیں
اس نے بھی دیکھی ہے دنیا یہ بھی سیاروں میں ہے
کفر نے اسلام کو شاید کہیں مارا کہ شوقؔ
ماتمی پوشاک سے کعبہ عزاداروں میں ہے
غزل
مارے غصے کے غضب کی تاب رخساروں میں ہے
شوق قدوائی