EN हिंदी
مانتا نہیں میری حجتیں بھی کرتا ہے | شیح شیری
manta nahin meri hujjaten bhi karta hai

غزل

مانتا نہیں میری حجتیں بھی کرتا ہے

عروج زہرا زیدی

;

مانتا نہیں میری حجتیں بھی کرتا ہے
بات بات میں اپنی جدتیں بھی کرتا ہے

آگ بھی لگاتا ہے آپ اپنے دامن میں
پھر اسے بجھانے کو بارشیں بھی کرتا ہے

عشق خود سے ہے اس کو اور خود ہی وہ پاگل
اپنا آپ کھونے کی سازشیں بھی کرتا ہے

دل میں جیتے رہنے کی آس بڑھتی رہتی ہے
ساتھ ساتھ مرنے کی خواہشیں بھی کرتا ہے

جاں کنی کے عالم میں یاد کر کے پیاروں کو
موت کے فرشتے سے منتیں بھی کرتا ہے

مجھ سے تھوڑا ڈرتا ہے پاس یوں نہیں آتا
باقیوں سے تو اکثر خلوتیں بھی کرتا ہے

مجھ سے کہتا رہتا ہے خوش رہا کرو ناں تم
اور دل دکھانے کی حرکتیں بھی کرتا ہے

بات بھی نہیں کرتا مجھ سے اور پھر اپنی
ایک ایک عادت میں منطقیں بھی کرتا ہے

کچھ الگ سا ہے سب سے کچھ عجب وہ ہے زہراؔ
اپنی ہر محبت میں شدتیں بھی کرتا ہے