EN हिंदी
معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھا | شیح شیری
mani-taraaz-e-ishq har ek baada-KHwar tha

غزل

معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھا

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

;

معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھا
اس میکدے میں مست جو تھا ہوشیار تھا

تمہید تھی جنوں کی گریباں ہوا جو چاک
یعنی یہ خیر مقدم فصل بہار تھا

بننے لگے ہیں داغ ستارے خوشا نصیب
تاریک آسمان شب انتظار تھا

تھے زندگی کے ساتھ محبت کے کاروبار
آخر کسی کے در پہ ہمارا مزار تھا

مرنے پہ بھی کٹا نہ عذاب غم فراق
کنج لحد خلاصۂ شب ہائے تار تھا

آغاز عشق ہی میں مجھے چپ سی لگ گئی
اک بات بھی نہ کی کہ نفس رازدار تھا

کیا لطف دے گیا وہ فریب وفا کا دور
گویا کسی کے دل پہ ہمیں اعتبار تھا

دنیا سے رہ روان محبت گزر گئے
اس کارواں کا عالم ہستی غبار تھا

چھٹ کر قفس سے میں نہ گیا سوئے بوستاں
آخر فریب خوردۂ فصل بہار تھا

اک آہ گرم ہم نے بھری تھی شب فراق
جل کر سحر کو خاک دل بے قرار تھا

فرصت ملی نہ ہم کو تماشائے دہر کی
ہر ذرہ حسن یار کا آئینہ دار تھا

اک لخت دل بچا تھا مگر وہ بھی اے نظرؔ
آخر کو نذر دیدۂ خوں نابہ یار تھا