مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہو واں اگر شراب
دوزخ میں ڈال دیجئے دیجے مگر شراب
زاہد کے بخت بد کی ہے خوبی وگرنہ کیوں
چھوڑے کوئی شراب کی امید پر شراب
توبہ تو ہم نے کی ہے پر اب تک یہ حال ہے
پانی بھر آئے منہ میں دکھا دیں اگر شراب
گویا شراب ہی سے بھرا عمر کا قدح
موت اس کی خوب ہے جو پیے عمر بھر شراب
سمجھا نہیں کہ جیتے ہیں مردے اسی طرح
چھڑکے وگرنہ کیوں وہ مری خاک پر شراب
ہے لطف زیست یہ کہ وہ بیٹھا ہو روبرو
بکھرے ہوں پھول ادھر تو دھری ہو ادھر شراب
بے خود کیا جہاں کو تری چشم مست نے
تھی کیسی اس پیالے میں اے فتنہ گر شراب
چشم سیاہ مست نگہ مست آپ مست
پیتا ہے دل لگی کو بت عشوہ گر شراب
توبہ میں ہم نہ کھائیں گے الزام کیا ہوا
اک آدھ یار پی گئے گر بھول کر شراب
غزل
مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہو واں اگر شراب
میر مہدی مجروح