مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
کل کیا ہے جو ملنا ہے مری جان تو مل آج
پھر صبح سے آشوب قیامت ہے جہاں میں
چہرہ پہ ترے کن نے بنایا ہے یہ تل آج
اے گریہ تو خاطر سے مری کیجو نہ صرفہ
میں خون دل خستہ کیا تجھ پہ بحل آج
چاہے ہے اگر کل کو تری نشو و نما ہو
دل کھول کے دانہ کی طرح خاک میں رل آج
کیا سینہ جو تڑپھوں کو نگہ کی تری جھیلے
اس تیر سے رہ جائے نہ فولاد کی سل آج
یارب نہ پڑے اصل سے اپنی کوئی یاں دور
یہ آب تھا سب جتنی کہ دیکھے ہے تو گل آج
قائمؔ یہ غضب کل تو نہ ٹوٹے تھا ترے پر
دیکھا ہے کہیں تیں وہ بت مہر گسل آج
غزل
مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
قائم چاندپوری