مانگا تھا ہم نے دن وہ سیہ رات دے گیا
سورج ہمیں اندھیرے کی سوغات دے گیا
سکے مرے خلوص کے لوٹا دیے مجھے
اپنی سمجھ میں وہ مجھے خیرات دے گیا
اس کو یہ زعم تھا کہ ہے وہ شوکت چمن
جنگل کا ایک پھول اسے مات دے گیا
اس کی ہنسی میں لے تھی کس جل ترنگ کی
میرے لبوں کو پیار کے نغمات دے گیا
مضمون عشق پر اسے کامل گرفت تھی
نظروں سے کیسے کیسے حوالات دے گیا
چہرے سے لے گیا مری پہچان چھین کر
نا سازگار وقت وہ صدمات دے گیا
سب پر مری نگاہ کرم ایک سی رہی
میں بانجھ دھرتیوں کو بھی برسات دے گیا
انصاف مجھ کو دے کہ نہ دے وہ مگر شبابؔ
تھوڑا سا وقت بہر ملاقات دے گیا

غزل
مانگا تھا ہم نے دن وہ سیہ رات دے گیا
شباب للت