EN हिंदी
مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے | شیح شیری
mana ki zindagi se hamein kuchh mila bhi hai

غزل

مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے

اقبال عظیم

;

مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے
اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے

محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے

قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

غرقاب کر دیا تھا ہمیں ناخداؤں نے
وہ تو کہو کہ ایک ہمارا خدا بھی ہے

ہو تو رہی ہے کوشش آرائش چمن
لیکن چمن غریب میں اب کچھ رہا بھی ہے

اے قافلے کے لوگو ذرا جاگتے رہو
سنتے ہیں قافلے میں کوئی رہنما بھی ہے

ہم پھر بھی اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج
آنکھیں بھی ہیں چراغ بھی ہے آئنا بھی ہے

اقبالؔ شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے