مانا کہ میرے ظرف سے بڑھ کر مجھے نہ دو
شبنم ہی مانگتا ہوں سمندر مجھے نہ دو
جس کو ہوا کے رخ پہ نہ کھولا گیا کبھی
اک ایسے بادباں کا مقدر مجھے نہ دو
دیوار جس کی سرحد صحرا سے جا ملے
ایسی سزائے خانۂ بے در مجھے نہ دو
لو دے رہی ہے سوچ کے وقفہ کی خامشی
ہر بات کا جواب سنبھل کر مجھے نہ دو
کچھ دے سکو اگر تو کوئی خواب سونپ دو
سایہ تلاش کرتا ہوں پیکر مجھے نہ دو
میں آپ اپنے جرم و سزا کا حریف ہوں
الزام شوق سب کے برابر مجھے نہ دو
گر سن سکو تو شاذؔ کی خاموشیاں سنو
تکلیف عرض حال مکرر مجھے نہ دو
غزل
مانا کہ میرے ظرف سے بڑھ کر مجھے نہ دو
شاذ تمکنت