معمولی بے کار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
مجھ کو اک آزار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
پاگل پن میں آ کر پاگل کچھ بھی تو کر سکتا ہے
خود کو عزت دار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
ہنس پڑتا ہوں جب کوئی حالات کا رونا روتا ہے
جیون کو دشوار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
میں واقف ہوں رنگوں کی ہر رنگ بدلتی فطرت سے
رونق کو بازار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
مجنوں اور شاہوں میں کچھ دن میں بھی اٹھا بیٹھا ہوں
صحرا کو گل زار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
منزل کی خواہش ہے جن کو آئیں میرے ساتھ چلیں
رستوں کو ہموار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
آنچل اور ملبوس پہ جن کی آنکھیں چپکی رہتی ہیں
ان کو با کردار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
فیض عالم بابرؔ خود بھی یار ہے جانے کس کس کا
یاروں کو مکار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
غزل
معمولی بے کار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
فیض عالم بابر