مال و متاع دشت سرابوں کو دے دیا
جو کچھ زر خیال تھا خوابوں کو دے دیا
رکھنے کا جو گہر تھا اسے دل میں رکھ لیا
بکنے کا تھا جو مال کتابوں کو دے دیا
سبزوں کو خوش لباس بنا کر زمین نے
کچھ رشک کا جواز گلابوں کو دے دیا
اپنے لہو کی بوند بنا کر دم نشاط
اک سوز لا زوال شرابوں کو دے دیا
آئے نہ جب گرفت میں سیف و قلم نعیمؔ
اپنا تمام کرب ربابوں کو دے دیا
غزل
مال و متاع دشت سرابوں کو دے دیا
حسن نعیم