مائل لطف ہے آمادۂ بیداد بھی ہے
وہ سراپائے محبت ستم ایجاد بھی ہے
شب تنہائی بھی ہے ساتھ تری یاد بھی ہے
دل کا کیا حال کہوں شاد بھی ناشاد بھی ہے
دولت غم سے ہر اک گوشہ ہے اس کا معمور
دل کی دنیا مری آباد بھی برباد بھی ہے
بے سبب تو نہیں احساس خلش کا مجھ کو
بھولنے والے ترے دل میں مری یاد بھی ہے
کیوں نہ آساں ہو رہ عشق کہ میرے ہمراہ
جذبۂ قیسؔ بھی ہے ہمت فرہادؔ بھی ہے
جل گیا اپنا نشیمن مگر افسوس یہ ہے
پھونکنے والوں میں اک برق چمن زاد بھی ہے
میرا وجدان محرک ہے مرے نغموں کا
طبع موزوں مری پابند بھی آزاد بھی ہے
کیا بتاؤں میں تمہیں کیا ہے نوائے اخترؔ
نغمے کا نغمہ ہے فریاد کی فریاد بھی ہے
غزل
مائل لطف ہے آمادۂ بیداد بھی ہے
اختر مسلمی