مآل سوز طلب تھا دل تپاں معلوم
ستم کی آگ بھی ہونے لگی دھواں معلوم
شکستہ پا بھی پہنچ ہی گئے سر منزل
نہ راستے کی خبر تھی نہ کارواں معلوم
شمیم دوست بڑھاتی ہے زندگی لیکن
ہمیں حقیقت ہستی ابھی کہاں معلوم
نہ جانے فتنہ گروں نے لگائی تھی کب آگ
ہمیں تو آنچ ہوئی اس کی ناگہاں معلوم
گزر چکے حد طوفاں سے موڑ لو کشتی
یہاں سے ہوتے ہیں ساحل کے کچھ نشاں معلوم
بچھڑ کے آپ سے کیا کیا گزر گئی دل پر
کہوں کسی سے تو ہو اس کو داستاں معلوم
ابھر کے کہتے ہیں پھولوں سے خار غم احسنؔ
کہ ہم نہ ہوں تو نہ ہو رنگ گلستاں معلوم
غزل
مآل سوز طلب تھا دل تپاں معلوم
احسن رضوی داناپوری