مآل عشق و محبت سے آشنا تو نہیں
کہیں یہ غم بھی تری طرح بے وفا تو نہیں
سفینے والو چلو آج دل کی بات کہیں
اٹھو خدا کے لئے ناخدا خدا تو نہیں
یہ اور بات ہے ماحول سازگار نہ ہو
شکستہ بربط احساس بے صدا تو نہیں
بجا کہ میری تباہی میں ان کا ہاتھ نہیں
مگر یہ گردش دوراں کا حوصلہ تو نہیں
جمود صحن چمن انقلاب نو کی دلیل
شعور غیرت اہل چمن مرا تو نہیں
سر نیاز جھکا ہے ز راہ ذوق سجود
ترے کرم کی قسم کوئی مدعا تو نہیں
غزل
مآل عشق و محبت سے آشنا تو نہیں
سید عاشور کاظمی