لطف زندگانی کا شوق آرزو میں ہے
جذبہ و جنوں میں ہے سعی و جستجو میں ہے
جو سکون خاطر ہے اس کے عیب میں دل کش
چاشنی ہے لکنت ہے سحر گفتگو میں ہے
اس کے قرب کی لذت مجھ سے کیا بیاں ہوگی
بے پناہ کیفیت صرف آرزو میں ہے
زہر زندگانی کا پی کے عقل آئی ہے
داروئے غم ہستی تلخئ سبو میں ہے
بھیڑ میں زمانے کی ہم سدا اکیلے تھے
وہ بھی دور ہے کتنا جو رگ گلو میں ہے
بات جامیؔ صاحب کی تلخ بھی ہے شیریں بھی
درد ہلکا ہلکا سا طرز گفتگو میں ہے
غزل
لطف زندگانی کا شوق آرزو میں ہے
جامی ردولوی