لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
جو زمانے کے ستم ہیں وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
انہیں قدموں نے تمہارے انہیں قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوستی میں تری در پردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
غزل
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغؔ دہلوی