لطف لے لے کے پیے ہیں قدح غم کیا کیا
ہم نے فردوس بنائے ہیں جہنم کیا کیا
آنسوؤں کو بھی پیا جرعۂ صہبا کی طرح
ساغر و جام بنے دیدۂ پر نم کیا کیا
حلقۂ دام وفا عقدۂ غم موج نشاط
یہ زمانہ بھی دکھاتا ہے چم و خم کیا کیا
لذت ہجر کبھی عشرت دیدار کبھی
آرزو نے بھی طبیعت کو دیئے دم کیا کیا
کس کس انداز سے کھٹکے رگ گل کے نشتر
تپش افروز ہوئے شعلہ و شبنم کیا کیا
شام ویراں کی اداسی شب تیرہ کا سکوت
دل محزوں کو ملے ہمدم و محرم کیا کیا
ہائے وہ عالم بے نام کہ جس عالم میں
بیت جاتے ہیں دل زار پہ عالم کیا کیا
عصمت و رفعت انجم سے خیال آتا ہے
خاک میں روندی گئی حرمت آدم کیا کیا
دب گئے منت مزدور سے ایواں کتنے
جھک گئے غیرت مفتوح سے پرچم کیا کیا
تھے مسلح غم معشوق سے گو ہم اخترؔ
پھر بھی دکھلائے غم دہر نے دم خم کیا کیا
غزل
لطف لے لے کے پیے ہیں قدح غم کیا کیا
اختر انصاری