EN हिंदी
لطف کا ربط ہے کوئی نہ جفا کا رشتہ | شیح شیری
lutf ka rabt hai koi na jafa ka rishta

غزل

لطف کا ربط ہے کوئی نہ جفا کا رشتہ

غلام ربانی تاباںؔ

;

لطف کا ربط ہے کوئی نہ جفا کا رشتہ
دل سے کچھ دور ہے ظالم کی انا کا رشتہ

دست عیسیٰ بھی وہی بازوئے قاتل بھی وہی
کتنا نازک ہے چراغوں سے ہوا کا رشتہ

جبر حالات کہو غم کی مکافات کہو
ٹوٹ بھی جاتا ہے ہونٹوں سے نوا کا رشتہ

سوچیے تو سبھی اپنے ہیں کوئی غیر نہیں
حاکم شہر سے ہے جرم و سزا کا رشتہ

منظر زیست میں کچھ رنگ تو بھر دیتا ہے
خار زاروں سے کسی آبلہ پا کا رشتہ

پھول نایاب سہی زخم تو نایاب نہیں
آج بھی دل سے وہی آب و ہوا کا رشتہ

کیا کریں رسم زمانہ کی شکایت تاباںؔ
درد سے رکھتے ہیں ہم لوگ سدا کا رشتہ