لطف ہی لطف ہے جو کچھ ہے عنایت کے سوا
ہے محبت سے سوا جو ہے محبت کے سوا
دوستوں کے کرم خاص سے بچنے کے لیے
کوئی گوشہ نہ ملا گوشۂ عزلت کے سوا
مجھ سے شکوہ بھی جو کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں
کچھ بھی آتا ہی نہیں تجھ کو شکایت کے سوا
آپ کے خط کو میں کس بات کا غماز کہوں
اس میں سب کچھ ہے بس اک حرف محبت کے سوا
جس قدر چاہو گناہوں پہ ہنسو خوب ہنسو
یہ علاج اور بھی ہے اشک ندامت کے سوا
وہ جو کہتے ہیں کہ ہے فہم و فراست ہم سے
ایسے لوگوں میں سبھی کچھ ہے فراست کے سوا
اس نئی بات کو بھی عرشؔ کبھی سوچا ہے
آج کل شعر میں جدت ہے تو جدت کے سوا
غزل
لطف ہی لطف ہے جو کچھ ہے عنایت کے سوا
عرش ملسیانی