لوگوں کے سبھی فلسفے جھٹلا تو گئے ہم
دل جیسے بھی سمجھا چلو سمجھا تو گئے ہم
مایوس بھلا کیوں ہیں یہ دنیا کے مناظر
اب آنکھوں میں بینائی لئے آ تو گئے ہم
کس بات پہ روٹھے در و دیوار مکاں ہیں
کچھ دیر سے آئے ہیں مگر آ تو گئے ہم
خود راکھ ہوئے صبح تلک سچ ہے یہ لیکن
اے رات ترے جسم کو پگھلا تو گئے ہم
روئے ہنسے اجڑے بسے بچھڑے بھی ملے بھی
دل سارے تماشے تجھے دکھلا تو گئے ہم
کیوں حاشیے پر آج بھی رکھتی ہے کہانی
کردار نبھانے کا ہنر پا تو گئے ہم
اب بڑھ کے ذرا ڈھونڈھ لیں منزل کے نشاں بھی
اکتائے ہوئے راستے بہلا تو گئے ہم
صابن کی طرح خود کو گلانا پڑا بے شک
پر لفظ محبت تجھے چمکا تو گئے ہم

غزل
لوگوں کے سبھی فلسفے جھٹلا تو گئے ہم
عمران حسین آزاد