لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے
اس نے مٹھی میں چھپا رکھے ہیں گوہر سارے
زخم دل جاگ اٹھے پھر وہی دن یار آئے
پھر تصور پہ ابھر آئے وہ منظر سارے
تشنگی میری عجب ریت کا منظر نکلی
میرے ہونٹوں پہ ہوئے خشک سمندر سارے
اس کو غمگین جو پایا تو میں کچھ کہہ نہ سکا
بجھ گئے میرے دہکتے ہوئے تیور سارے
آگہی کرب وفا صبر تمنا احساس
میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے
دوستو تم نے جو پھینکے تھے مرے آنگن میں
لگ گئے گھر کی فصیلوں میں وہ پتھر سارے
خون دل اور نہیں رنگ حنا اور نہیں
ایک ہی رنگ میں ہیں شہر کے منظر سارے
قتل گہہ میں یہ چراغاں ہے مرے دم سے بشیرؔ
مجھ کو دیکھا تو چمکنے لگے خنجر سارے
غزل
لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے
بشیر فاروقی