EN हिंदी
لوگ صبح و شام کی نیرنگیاں دیکھا کیے | شیح شیری
log subh o sham ki nairangiyan dekha kiye

غزل

لوگ صبح و شام کی نیرنگیاں دیکھا کیے

حسن نجمی سکندرپوری

;

لوگ صبح و شام کی نیرنگیاں دیکھا کیے
اور ہم چپ چاپ ماضی کے نشاں دیکھا کیے

عقل تو کرتی رہی دامان ہستی چاک چاک
ہم مگر دست جنوں میں دھجیاں دیکھا کیے

خنجروں کی تھی نمائش ہر گلی ہر موڑ پر
اور ہم کمرے میں تصویر بتاں دیکھا کیے

ہم تن آسانی کے خوگر ڈھونڈتے منزل کہاں
دور ہی سے گرد راہ کارواں دیکھا کیے

ہم کو اس کی کیا خبر گلشن کا گلشن جل گیا
ہم تو اپنا صرف اپنا آشیاں دیکھا کیے

موسم پرواز نے نجمیؔ پکارا تھا مگر
پر سمیٹے ہم قفس کی تیلیاں دیکھا کیے