لوگ کیوں ہم سے شکایت کی توقع رکھیں
ہیں خود آزار بھی اتنے کہ ستم گر روئیں
اب تو آتی ہیں کچھ اس طرح تمہاری یادیں
دھوپ میں جیسے کسی چہرے سے بادل گزریں
ماتم غنچہ میں روئے ہیں ندامت ہے بہت
شدت غم میں رہا پاس تبسم نہ ہمیں
اب غم دل کا سفینہ ہے کہ دریا مانگے
اور یہ رونا ہے کہ آنسو بھی نہیں آنکھوں میں
ہم سے لپٹی ہوئی تلوار ہو جیسے یارو
اک نیا زخم سلگتا ہے جو کروٹ بدلیں
تجھ کو دیکھا جو نہ ہوتا تو خدا کہہ لیتے
یہ بھی مشکل نظر آتا ہے کہ پتھر پوجیں
وہ کرم ہے ترا سانسوں میں سنائی دینا
یہ ستم ہے کہ تجھے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
حشمیؔ جسم نظر آتا ہے سولی کی طرح
جب مسیحا کے لئے پیار سے بازو کھولیں

غزل
لوگ کیوں ہم سے شکایت کی توقع رکھیں
جلیل حشمی