لوگ کہتے ہیں کہ سورج میں اندھیرا کیوں ہے
دھوپ نکلی ہے غلط بات کا چرچا کیوں ہے
زندگی سے نہیں جب تم کو کوئی دلچسپی
چند لمحوں کی مسرت کا تقاضا کیوں ہے
پڑھنے والوں کے دلوں پر ہو صداقت کا اثر
ایسی تحریر وہ لکھتا ہے تو لکھتا کیوں ہے
اپنے مرکز پہ جسے لوٹ کر آنا ہی پڑا
دیکھ کر آئنہ اب چہرہ چھپتا کیوں ہے
ڈر رہا ہوں کہ مصیبت نہ کہیں آ جائے
ذہن میں تیزی سے احساس یہ ابھرا کیوں ہے
مجھ سے نفرت ہے تو اظہار کبھی بھی نہ کیا
وہ فرشتہ ہے تو کچھ کہنے سے ڈرتا کیوں ہے
یاد ہوگی تمہیں پہلے کی ہر اک بات حصیرؔ
پھر محبت سے اسے تم نے نوازا کیوں ہے

غزل
لوگ کہتے ہیں کہ سورج میں اندھیرا کیوں ہے
حصیر نوری