لوگ کہتے ہیں کہ قاتل کو مسیحا کہئے
کیسے ممکن ہے اندھیروں کو اجالا کہئے
چہرے پڑھنا تو سبھی سیکھ گئے ہیں لیکن
کیسی تہذیب ہے اپنوں کو پرایا کہئے
جانے پہچانے ہوئے چہرے نظر آتے ہیں
وقت قاتل ہے یہاں کس کو مسیحا کہئے
آپ جس پیڑ کے سائے میں کھڑے ہیں اس کو
صحن گلشن نہیں جلتا ہوا صحرا کہئے
سب کے چہروں پہ ہیں اخلاق و مروت کے نقاب
کس کو اپنا یہاں اور کس کو پرایا کہئے
شب کے ماتھے پہ کوئی سایہ نمودار ہوا
اس کو اب پیار کے آنگن کا سویرا کہئے
زہر تنہائی غم پی کے محبت میں خیالؔ
کس طرح موت کو جینے کا سہارا کہئے
غزل
لوگ کہتے ہیں کہ قاتل کو مسیحا کہئے
فیض الحسن